۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
تخریب حرم بقیع

حوزہ/قبروں پر عمارت کی تعمیر اور ان کی تعظیم و تکریم کے مسئلہ میں جب ہم سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اہل سنت نے قبروں پر تعمیر کو حرام قرار دینے کے لئے بظاہر جن روایتوں پر بھروسہ کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| قبروں پر عمارت کی تعمیر اور ان کی تعظیم و تکریم کے مسئلہ میں جب ہم سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اہل سنت نے قبروں پر تعمیر کو حرام قرار دینے کے لئے بظاہر جن روایتوں پر بھروسہ کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں۔

۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلامؐ تشییع جنازہ میں شریک تھے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو مدینہ جائے اور وہاں کوئی بت بغیر توڑے نہ چھوڑے اور کوئی قبر بغیر برابر کئے باقی نہ رکھے اور کوئی تصویر بغیر خراب کئے نہ چھوڑے۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا: میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسولؐ۔ وہ شخص مدینہ گیا لیکن وہاں کے لوگوں سے ڈر گیااور وہاں سے واپس آگیا پھر حضرت علی علیہ السلام نے کہا: یا رسول اللہؐ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ۔ حضرت علی علیہ السلام گئے اور واپس آکر بیان کیا کہ میں وہاں گیا اور میں نے کوئی بت نہیں پایا مگر یہ کہ اسے توڑ دیا، کوئی قبر نہیں پائی مگر یہ کہ اسے برابر کر دیا اور کوئی تصویر نہیں پائی مگر یہ کہ اسے خراب اور مبہم کر دیا۔ 

جو شخص اس روایت پر توجہ کرے، وہ محسوس کرے گا کہ یہ روایت کئی جہتوں سے مشکوک ہے۔

۱۔ سب سے پہلے اس واقعہ کے زمانے اور مکان کے اعتبار سے۔ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا ۔ بظاہر ممکن نہیں لگتا کہ نبی اکرمؐ نے مکہ سے کسی شخص کو مدینہ بھیجا ہو کہ وہ جاکر وہاں بتوں کو توڑ دے اس لئے کہ اس زمانے میں مکہ کے حالات ایسے نہیں تھے کہ پیغمبر اسلامؐ تمام مسلمانوں کی تشییع جنازہ میں شریک ہوں اور اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے اصحاب کرام سے ایسے حاکمانہ لہجے میں یہ با ت کہی ہو جیسے مکمل طور پر مضبوط سیاسی اقتدار حاصل ہو۔ اس طرح کہ ایک شخص جاکر تمام احکام پر آزادی کے ساتھ عمل کر سکے، تمام بتوں کو توڑ دے، تمام قبروں کو برابر کر دے اور تمام تصویروں کو تباہ کر دے لہٰذا اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد رونما ہوا جب نبی اکرمؐ باقاعدہ وہاں قیام پذیر ہوں اور آپ کے ہاتھوں میں ایک مضبوط سیاسی اقتدار ہو۔ 

اگر ہم اس روایت پر دقت کریں تو اس زمانے میں ممکن نہیں ہے اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس زمانے تک مدینہ منورہ میں بت موجود تھے جب کہ مشہور یہ ہے کہ اوس و خزرج ابتدائی مراحل میں اسلام لا چکے تھے اور اس وقت نبی اکرمؐ کی حکومت کے ارکان مضبوط ہو چکے تھے، سوائے منافقین کے عمل کے ہر جگہ آپ کے احکام اور آپ کے تعلیمات پر مکمل طور پر عمل ہوتا تھا اور منافقین کے یہاں بت پرستی جیسی عادات و اطوار کا تذکرہ نہیں ملتا اس لئے راوی کے اس قول کے کوئی معنی نہیں ہوں گے کہ پہلے جانے والا شخص اہل مدینہ سے ڈر گیا اور واپس آگیا کیا اس وقت تک مدینہ کے لوگ اس حد تک بت پرستی سے وابستہ تھے کہ نبی اکرمؐ کے ذریعہ بھیجے گئے شخص کو ڈرا کر واپس کر دیتے؟ کیا تاریخ میں اس طرح کا کوئی اور نمونہ موجود ہے اور اگر یہ مسئلہ اتنا ہی اہم ہے تو اس کے لئے وسیع رد عمل یعنی اس سے بڑے پیمانے پر قدم اٹھانا چاہئے تھا نہ صرف یہ کہ محض ایک دوسرے شخص کو اس اہم کام کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کے ذریعہ اتنے بڑے اور حساس مرحلہ کو سرکرنے کا مطالبہ کیا جائے اور اس بات کی تصدیق کس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک اکیلا شخص مدینہ جائے اور مختصر سی مدت میں ان تمام احکام پر عمل کرکے واپس آجائے جن کا روایت میں تذکرہ کیا گیا اور کیا یہ ممکن ہے کہ اہل مدینہ نبی اکرمؐ کی طرف سے ایک شخص کے پیغام پر بتوں کے توڑنے کے عمل کو قبول کر لیں۔ یہ بہت بعید ہے کہ وہ اتنی آسانی سے اپنے آباء و اجداد کی تصویروں کو مخدوش کرنے اور ان کی قبروں کو منہدم کرنے کے عمل کو قبول کر لیں۔ یہ ایک انتہائی حساس اور جذبات سے جڑا ہوا مسئلہ ہے جس کے لئے انسانی نفوس بغیر مقدمہ سازی اور پہلے سے آمادگی کے تیار نہیں ہو سکتے اور یہ طے ہے کہ اپنے کاموں کے لئے ابتدائی مرحلہ میں انکار و اعتراض سامنے آتا ہے جب کہ راوی کے لکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک اکیلا شخص مدینہ گیا ، بتوں کو توڑا، تصویروں کومخدوش کیا ، قبروں کی حالت میں تبدیلی کرکے انہیں برابر کیا اور بلا کسی مزاحمت اور اعتراض کے واپس پہنچ گیا۔ اس کے برخلاف یہ بھی واضح ہے کہ نبی اکرمؐ کے مدینہ میں قیام کے دوران مدینہ میں بت موجود نہیں تھے اور ایک شخص یہ عمل ہرگز انجام نہیں دے سکتا تھا اور وہ بھی مختصر سی مدت میں جو ان کاموں کو انجام دینے کے لئے کافی نہیں تھی اور اگر یہ کام انجام بھی پاتا تو لوگوں کی طرف سے اتنی آسانی سے اسے انجام نہ دینے دیا گیا ہوتا، وہ اتنی آسانی سے اسے انجام دینے کے لئے ہرگز تیار نہ ہوجاتے۔

شاید پہلے شخص کے ڈر جانے اور اس سلسلہ میں کوئی قدم نہ اٹھا سکنے کا سبب یہی کیفیت رہی ہو اور وہ دیکھ رہا ہو کہ مدینہ کے لوگ کس طرح اپنے بزرگوں کی قبر کے احترام اور ان کو باقی رکھنے کے سلسلہ میں حساس تھے اور اس حساسیت کا تقاضا تھا کہ وہ دوسرے شخص کی مزاحمت کرتے جنہیں اس کام کے لئے بھیجا گیا تھا اور ان کے حوالہ کئے گئے کاموں کی انجام دہی میں کچھ نہ کچھ ہنگامہ اور اعتراض ضرور ہوتا اور وہ اس سلسلے میں نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور یہ بات پوری طرح مشہور ہوئی ہوتی اور راویوں نیز مورخین کے درمیان رائج ہوتی۔ 

۲۔ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں اپنی حکومت کے دوران ابوالہیاج اسدی کو کوفہ میں اس طرح کی مہم کے لئے بھیجا تھا جو آپ کی انتظامی فورس کے کمانڈر تھے۔ احمدبن حنبل کا بیان ہے کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا کہ اس سے سفیان بن حبیبی نے ابووائل سے انہوں نے ابوالہیاج اسدی سے نقل کیا کہ مجھ سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے رسول خداؐ نے مجھے بھیجا تھا۔ جہاں کسی کی تصویر دیکھنا، اسے خراب کر دینا اور جس قبر کو اٹھا ہوا دیکھنا اسے برابر کر دینا۔

ابوالہیاج جو اس وقت امام کی انتظامیہ فورس کا کمانڈر تھا اور یہ ذمہ داری اسے بھاری فورس کے ساتھ سونپی گئی تھی۔ اس طرح سے اسے کام کے لئے بھیجنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور یہ طے ہے کہ وہ تمام شکوک و شبہات جو پچھلی روایت میں تھے، وہ اس روایت میں بھی پائے جائیں گے اس لئے کہ یہ روایت بھی اسی طرح کی وجوہات پر مشتمل ہے اور چونکہ ہم نے اس روایت میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا لہٰذا ابوالہیاج الاسدی کی روایت کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ وہ بھی اسی طرح کے حالات پر مشتمل ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے ابوالہیاج اسدی کے لئے اپنے حکم اور مدینہ میں تشییع جنازہ کے موقع پر رسول اکرمؐ کے حکم درمیان رابطہ قرار دیا ہے لہٰذا جو شکوک و شبہات اس روایت پر ہیں وہ یہاں بھی ہوں گے۔ اس کے علاوہ ابوالہیاج کی روایت میں ایک خاص طرح کا ضعف بھی پایا جاتا ہے۔ روایت کی سندیں جرح و تعدیل کرنے والے علمائے اہل سنت کے نزدیک اسی روایت کے دو راوی ضعیف ہیں۔ سفیان ثوری اور حبیب ابن ابی ثابت۔

ذہبی نے سفیان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ تدلیس کرتا تھا اور ضعیف راویوں سے روایت نقل کرتا تھا۔

ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ سفیان نے ایک حدیث نقل کی، اس وقت میں وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ تدلیس سے کام لے رہا ہے۔ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، شرمندہ ہو گیا اور کہنے لگا میں اس سے روایت نقل کر رہا تھا۔

یحییٰ بن سعید ابن فروخ نے اس کے حالات زندگی کے بارے میں کہا ہے کہ ابوبکر نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ ثوری چاہ رہا تھا کہ مجھ پر تدلیس کرتے ہوئے ایک ضعیف راوی کو ترجیح دے۔ میں نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔

تدلیس کے معنی ہوتے ہیں کہ کوئی روایت کسی ایسے شخص سے نقل کرے جسے دیکھا نہ ہو اور ان دونوں کے درمیان جو رابطے ہوں ان رابطوں کو ذکر نہ کیا جائے۔ اسی طرح انہوں نے سفیان ثوری کے حالات زندگی میں لکھا ہے۔ ابن مدینی نے یحییٰ ابن سعید سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سفیان نے ابوبکر ابن حفص اور حیان ابن ایاس سے ملاقات نہیں کی اور سعید ابن ابوالبردہ سے نہیں سنا اور بغوی کا کہنا ہے کہ اس نے یزید رقاشی سے نہیں سنا اور احمد نے کہا ہے کہ اس نے سلمۃ بن کہیل سے حدیث مسائیہ (آزادی چاہنے والے غلام کی حدیث)کو نہیں سنا۔ اسی طرح خالد بن سلمہ سے قطعی طور پر نہیں سنا اور نہ ہی ابن عون سے ایک حدیث کے علاوہ سنا۔

یہ ابن حجر کی صراحت ہے کہ وہ ایک ضعیف روایت نقل کرنے والا (مدلس) شخص تھا۔ کبھی کبھی وہ ایسے افراد کی روایتیں نقل کرتا تھا جس کے بارے میں اسے وہم ہوتا تھا کہ ان سے ملاقات کر چکا ہے جب کہ وہ نہ ان سے ملا اور نہ ہی ان سے کسی طرح کی گفتگو سنی۔

اس کے علاوہ حبیب ابن ثاقب قیس ابن دینار ابن حیان نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ تدلیس کرنے والا تھا، عقیلی کا کہنا ہے کہ ابن عون نے اسے متہم شمار کیا ہے۔ قطان نے کہا کہ اس کی حدیثوں پر توجہ نہ کی جائے سوائے ان حدیثوں کے جو اس نے عطا سے نقل کی ہوں۔ اس لئے کہ عطا کے علاوہ دیگر حدیثیں نہ قابل قبول ہیں اور نہ ہی محفوظ۔ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ وہ مدلس (ضعیف روایت نقل کرنے والا) تھا۔ ابن حجر نے ایک دوسری جگہ پر کہا کہ وہ بہت زیادہ ارسال (بغیر سلسلۂ رواۃ ذکر کئے نقل کرنے والا) اور تدلیس کرنے والا تھا۔ اس کی وفات ۱۱۹ھ میں ہوئی۔

یہ تمام باتیں روایت کی سند کے بارے میں تھیں۔ اب راویوں کو دیکھیں ، اگر ان کے بارے میں کہیں تعریف وارد ہوئی ہے تو مذمت بھی وارد ہوئی ہے اور ٹکراؤ کے وقت جرح کرنے والے کو تعریف کرنے والے پر مقدم کیا جاتا ہے لہٰذا مذکورہ حدیث استدلال کے لئے اپنا اعتبار کھو دیتی ہے۔

اس حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ کتاب صحاح اور مسانید ہیں۔ ابو الہیاج سے ایک حدیث کے علاوہ کوئی اور حدیث نقل نہیں ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث سے بھلا کس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے جس کے راویوں میں تدلیس (بغیر دیکھے یا بغیر واسطے کے روایت نقل کرنے والے) یا مضعف (ضعیف روایت نقل کرنے والے) ہوں۔

ان دونوں روایتوں سے زیادہ سے زیادہ جو چیز ثابت ہوتی ہے وہ قبروں کا برابر کرنا ہے۔ یہ دونوں روایتیں ضریح اور قبے بنانے کی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ روایتیں قبروں کو زمین کی سطح کے برابر کرنے پر دلالت کر رہی ہیں جب کہ یہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت کے بالکل برخلاف ہے ، جیسا کہ اس کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔یہاں تک آج بھی مسلمانوں کی سیرت اس کے خلاف ہے سوائے ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے اور عنقریب ہم بیان کریں گے کہ اہل سنت کے چارو مذاہب اس نظرئے کے قائل نہیں ہیں جن کا ابن تیمیہ پابند ہے کہ قبر کو زمین کی سطح کے برابر بنایا جائے بلکہ فقہا قبر کو زمین سے ایک بالشت اونچا کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ ان روایتوں کو قبروں کے زمین کے برابر کرنے کے بجائے ایک دوسرے مطلب پر حمل کریں یعنی انہیں گولائی میں اونچا بنانے کے مقابلہ میں مسطح بنایا جائے۔ اس لئے قرطبی نے حدیث پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر قبر کو گول اور ابھرا ہو بنانا منع ہے بلکہ اسے برابر ہونا چاہئے جیسا کہ بعض اہل علم نے کہا ہے اور جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جس چیز کو برابر کرنے کی بات کی گئی وہ یہی گولائی میں بڑھا ہوا ابھار تھا لہٰذا اصل قبر کا احترام محفوظ ہے ۔

تحریر: سید حمیدالحسن زیدی،الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .